Muhammad Iqbal
محمد اِقبال | |
---|---|
![]() |
Ghulami Mein Na Kaam Aati Hain Shamshiren
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں
واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں
واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
JAUN ELIA

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے
No comments:
Post a Comment